بنیادی صفحہ / مضامین / تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل(آٹھویں اور آخری قسط( ۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

تنظیم اور سیاسی میدان کے کھیل(آٹھویں اور آخری قسط( ۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Print Friendly, PDF & Email

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے………..

میرا احساس ہے کہ بھٹکل کا سیاسی منظر نامہ بدلنے کے لئے مجلس اصلاح و تنظیم کو اپنی سیاسی حکمت عملی زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بدلنا ہوگا ۔ خاص کرکے غیر مسلم برادری سے ہم نے سیاسی محاذ پرمفاہمت اور تعاون کی جو توقعات پال رکھی ہیں، ان کا دوبارہ حقائق پر مبنی جائزہ لینا ہوگا۔بار بار تجربات کی روشنی میں اب یہ بات تقریباً صاف او رواضح ہوچکی ہے کہ ہم تنہا اپنے ووٹوں سے اسمبلی یا پارلیمانی سیٹ جیت نہیں سکتے ۔ اور غیر مسلم برادری کا سیکیولر کہلانے والا طبقہ بھی ہمارے ساتھ بظاہر ہم آہنگی کے باجود ہمیں دغا دے جاتا ہے۔میں نے گزشتہ قسط میں نامدھاری برادری سے ایک معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی بات کہی تھی ،مگر ۔۔۔۔ 
نامدھاری قائدین کی چال: نامدھاری قائدین کے ساتھ تنظیم میں ہونے والی نشستوں میں بالاتفاق یہ پالیسی منظور ہوئی تھی کہ آئندہ بھٹکل اسمبلی حلقے میں ہمیشہ تنظیم اور نامدھاری ایسو سی ایشن کا متفقہ امیدوار میدان میں اتارا جائے گا۔ ہر الیکشن میں ایک میعاد کے لئے نامدھاری ایسو سی ایشن کا تجویز کردہ امیدوار ہوگاجسے مسلمانوں کی طرف سے مکمل حمایت دی جائے گی اور دوسری مرتبہ تنظیم کی طرف سے مسلم امیدوار ہوگا جس کی مکمل حمایت نامدھاری ایسو سی ایشن کی طرف سے کی جائے گی۔ چونکہ اس وقت الیکشن قریب تھا، تو سوال یہ اٹھا کہ اب پہلا امیدوار کون ہوگا۔ نامدھاری قائدین نے اصرار کیاکہ اس بار انہی کا امیدوار ہونا چاہیے۔ اور آئندہ دوسری مرتبہ وہ تنظیم کے مسلم امیدوار کی حمایت کریں گے۔ غور خوض کے بعدباہمی اعتماد کی بنیاد پر بات مان لی گئی۔ جس کے بعدجے ڈی نائک کو نامدھاری ایسوسی ایشن نے کانگریس امیدوار کے بطور پیش کیا اور ہم نے اپنا وعدہ نبھا تے ہوئے اس وقت جے ڈی نائک کی اجتماعی حمایت کی۔ لیکن جب جے ڈی نائک کی میعاد ختم ہونے کے قریب آگئی اور ہم نے آئندہ الیکشن میں ہمارے امیدوار کے تعلق سے لائحۂ عمل طے کرنے کے لئے جب انہی نامدھاری قائدین سے رابطہ قائم کیا تو پہلے وہ ملاقاتوں کے لئے ٹال مٹول کرتے رہے اور پھر ایک دن ٹکا سا جواب دے دیا کہ جو نامدھاری قائدین تنظیم کے ساتھ معاہدہpactکرنے میں آگے آگے تھے اب وہ خود متحد نہیں ہیں بلکہ نامدھاری ایسو سی ایشن ہی اب باقی نہیں رہی ہے اوروہ بالکل غیر فعال defunctہوچکی ہے !اس پس منظر میںآپ سوچ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس "ٹک ٹک دیدم ، دم نہ کشیدم”جیسی صورتحال کے سوا بچا کیا تھا؟کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ:

کسی کے دل میں جگہ ہو تو بوجھ بانٹوں بھی
کہیں زمین نہیں ہے ، صلیب کہاں رکھوں

کیا تنظیم کامتحدہ فیصلہ نقصان دہ ہے؟!: سوچنے سمجھنے والا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کا خیال ہے کہ تنظیم کا متحدہ سیاسی فیصلہ جہاں مسلمانوں کی ایک سیاسی قوت اورباہمی اتحاد کا بڑا اہم مظاہرہ ہوتا ہے وہیں پر ہمارا یہ موقف دو طرح سے منفی اثرات کا سبب بھی بنتا ہے۔ایک تو ہماری اپنی پوری طاقت اور قوت کے ساتھ ساتھ کافی بڑی مالی قربانی سے خوامخواہ کوئی ایک سیاسی پارٹی فائدہ اٹھاتی ہے اور آسانی سے جیت جاتی ہے ۔ پھر اس کے بعد ہمارے اجتماعی مفاد کی اس پارٹی یا جیتنے والے اس امیدوار کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ دوسری طرف ہمار ا اس طرح کسی ایک پارٹی کے حق میں اجتماعی موقف اختیار کرنے سے خود ہمارے اپنے ابھرتے ہوئے سیاسی لیڈروں کا گلا کھونٹنے جیسی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔ کیونکہ تنظیم کے اجتماعی موقف کے بعد بحیثیت ملت ہم میں سے ہر ایک کو اسے نہ صرف قبول کرنا ہوتا ہے بلکہ عملاً اس کو نافذ کرنے میں بھی اپنا کردار نبھانا ہوتا ہے۔اور پارٹی کے تقاضوں کو نظر انداز پارٹی کارکنان کو مخالف پارٹی کے لئے کام کرنا ہوتا ہے جس سے ان کی اپنی پارٹی کی نظروں میں ان کی امیج مجروح ہوجاتی ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کیسے ابھرے گی؟: موجودہ سچویشن میں ہماری سیاسی قیادت کا ابھر نا اس لئے ناممکن ہوجاتا ہے کیونکہ تنظیم کے فیصلے کے بعد کسی دوسری سیاسی پارٹی سے وابستہ کسی بھی لیڈر کے لئے اپنی پارٹی کے لئے سرگرمی دکھانے کا موقع نہیں رہتا ہے۔ اور اگر بالفرض کوئی اس طرح کی حرکت کرے تو پھر اسے باغی اور قوم کا غدار ہونے کا تمغہ سینے پر لینے کے لئے تیار رہنا ہوتا ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ پارٹی کے کارکنان کے لئے الیکشن کا زمانہ ہی ایساوقت ہوتا ہے جہاں اپنی سرگرمیاں دکھا کر پارٹی کے اعلیٰ لیڈروں کے سامنے سرخرو ہونے اور آئندہ کے لئے اپنے آپ کو کسی مقام پر پہنچانے کی راہ ہموار کرنے کا موقع ہوتا ہے۔لیکن مجبوری یہ بن جاتی ہے کہ الیکشن سے پہلے کسی بھی پارٹی میں چاہے جتنے اہم عہدے میں رہیں اور چاہے کیسی ہی سرگرمیاں دکھاتے رہیں، لیکن الیکشن کے دنوں میں جب تنظیم کا فیصلہ آجاتا ہے تو پھر کسی کو بھی تنظیم کے موقف سے ہٹ کردوسر ی پارٹی یا دوسرے امیدوار کے لئے کام کرنے کا موقع بالکل باقی نہیں رہتا۔ایسے میں ہمارے وہ تمام سیاسی لیڈران اپنی اپنی پارٹیوں کی نظر میں ناکارہ اور نا اہل بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور میرے خیال میں ہمارے یہاں ابھرتی ہوئی سیاسی قیادت کے لئے یہ ایک المیہ سے کم سے نہیں ہے۔

احساس ہوا بربادی کا جب سارے مکاں میں دھول اُڑی
آئی ہے ہمارے آنگن میں پت جھڑ کی ہوا دھیرے دھیرے

کیا کوئی تنظیم کے فیصلوں کو متاثر کرتاہے؟: عام طور پر ہر مرتبہ الیکشن کے تعلق سے تنظیم کا متحدہ موقف سامنے آتے ہی کسی دوسری پارٹی سے وابستگی یا قربت رکھنے والے افراد کی طرف سے یہی کہا جاتا ہے کہ تنظیم میں چونکہ فلاں پارٹی سے وابستہ قائدین اقتدار پر ہیں اس لئے اسی پارٹی کے حق میں فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی بات کو عوام میں مشہور کرنے اور آپسی مخالفت کا رنگ بھرنے کی بھی کوششیں ہوتی ہیں جس کی وجہ سے ہر الیکشن کے پس منظر میں تحقیقات، غداری ، بائیکاٹ اور پابندیوں کا نیا سلسلہ چل پڑتا ہے۔ نئی رنجشیں کھڑی ہوجاتی ہیں۔ تنظیم کی قیادت کوطعن وتشنیع کانشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور متحدہ موقف کے نتیجے میں ایک حد تک انتشاری کیفیت بھی سامنے آتی ہے۔
حالانکہ تنظیم کے سیاسی پینل کے تحت ہر بار تمام ممکنہ احتیاط کے ساتھ باہمی مشورے اور جائزے کے بعد ہی منصفانہ اجتماعی فیصلہ کیا جاتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سیاسی معاملے میں تنظیم کی فیصلہ کن کمیٹی میں جس کسی بھی سیاسی پارٹی کے لیڈروں کے موجود رہیں گے ،اسی پارٹی کے حق میں تنظیم کے فیصلے کا رخ بدلنے یا وہی نہج اختیار کرنے کی گنجائش اپنی جگہ موجود ہوتی ہے ۔ کیونکہ پارٹی کے وفادار لیڈر یا کارکن کی حیثیت سے اپنی پارٹی کے حق میں فیصلہ لانے کی کوشش کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہوتی ہے ، اور اس سے پارٹی کے پاس انہیں سربلند ہونا ہوتا ہے جو خودان کے سیاسی مستقبل کا ضامن ہوتا ہے۔
اب تنظیم کیا کرے ؟: سیاسی بساط پر کھیلے جارہے سیاسی کھیلوں،مقامی سماجی و سیاسی حالات اور تنظیم کی پوزیشن پر اتنی تفصیلی اورمبسوط گفتگو کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیاست کے اس بھنور سے کیسے باہر نکلا جائے اورہماری سیاسی قوت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کونسے اقدامات کیے جائیں جوملت کے لئے فائدہ مند ثابت ہوں۔اس لئے اہم ترین سوال یہ ہے کہ اب تنظیم کو کیا پالیسی اپنانی چاہیے۔اس کا جواب میرے خیال میں یہ ہوسکتاہے کہ تنظیم کے تحت ہمارے پورے اسمبلی حلقے میں موجودبرادری کے اعلیٰ دماغ اور حقیقی معنوں میں سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ذی فہم حضرات پر مشتمل ایک خصوصی مجلس مشاور ت منعقد کی جائے ۔اس میں پارٹی پالی ٹیکس سے بالاتر ہوکر ان تمام باتوں کا حقیقت پسندانہ باتوں کا بھرپور جائزہ لیا جائے اور اس کے نقصان دہ پہلوؤں کے تدارک کی تجاویز اور تدابیر پربحث و گفتگو کرتے ہوئے کوئی نیا لائحۂ عمل اختیارکیا جائے۔بنیادی طور پر اس بات کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے کہ موجودہ حالات اور حقائق کے پس منظر میں کیا متحدہ سیاسی موقف اختیار کرنے کی پالیسی پر ہمیں قائم رہنا چاہیے؟ یا ہماری برادری کے سیاسی کارکنان کوآزادانہ طور پرپارٹی پالی ٹیکس کھیل کر بڑی سیاسی پارٹیوں میں اپنی جگہ بنانے کا موقع دینا چاہیے !اجتماعی موقف اپنانے کی پالیسی پر قائم رہنے کی صورت میں کیا تنظیم کے سیاسی پینل میں سیاسی پارٹی کے معلوم کارکنان اور لیڈران (چاہے وہ تنظیم کے کلیدی عہدیدار ہی کیوں نہ ہوں!) کو شامل رکھنا چاہیے ؟یا پھر اسے پورے حلقے کے غیر مکمل طور پر باشعور مگر غیر سیاسی افراد پر مشتمل ہونا چاہیے!
چونکہ ابھی سال دیڑھ سال کے اندر ہی انتخابات ہونے جار ہے ہیں، اس لئے تنظیم اس ضمن میں ابھی سے ہلچل کرنی ہوگی اور نشستوں کا آغاز کرنا ہوگا ، ورنہ پھر ہر بار کی طرح ہمیں نئی دشواریوں اور نئے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا ہوگا، جس کی شدت پہلے سے کچھ زیادہ ہی ہونے کے امکانات نقش بر دیوار نظر آ رہے ہیں !

زمانہ دوستی کرنے کا گر نہیں ، نہ سہی
میں چاہتا ہوں کہ دشمن ہی کم کیے جائیں

********************

[email protected]

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 

جواب لکھیں

آپ کا ای میل شائع نہیں کیا جائے گا۔نشانذدہ خانہ ضروری ہے *

*