Home / Articles / بچوں کا ادب اور اس کے تقاضے (۲) تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔ کرناٹکا

بچوں کا ادب اور اس کے تقاضے (۲) تحریر: عبد المتین منیری۔ بھٹکل۔ کرناٹکا

Print Friendly, PDF & Email

سیمنیار بچوں کے ادب کے موضوع پر منعقد ہوا تھا،  جس میں ہندوستان بھر کے دارالعلوموں اور جامعات سے چنندہ اہل قلم اور دانشور شریک ہوئے تھے،اس موقعہ پر جامعہ آباد میں کتب اطفال کی ایک خوبصورت نمائش بھی سجائی گئی تھی، اس سیمینار کے کچھ عرصہ بعد جامعہ کے بطن سے فارغین کی ایک نسل اٹھی جسے ادب اطفال کی ایک تازہ دم تحریک اٹھانے کا شرف حاصل ہوا، جو بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت بن گئی ہے، اور جس کے ثمرات سے وطن عزیز مستفید ہورہا ہے، ۳ فروری ۲۰۲۳ء سے ادارہ ادب اطفال بھٹکل کا شروع ہونے والا کتاب میلہ اپنی نوعیت کا پہلا اور سنہرا قدم ہے، رابطہ کے سیمینار کے موقعہ پر اس ناچیز نے ایک برجستہ تحریر پیش کی تھی، افادہ عام کے لئے اسے دو قسطوں میں پیش کیا جارہا ہے، اللہ تعالی نے توفیق دی تو آئندہ ان شاء اللہ اس پر نظر ثانی اور ترمیم اضافہ کی کوشش کی جائے گی)۔

———————————–

( 2)

اس وقت ہم اسلام کے نام لیوا بڑی مشکل سے دوچار ہیں، بچوں کی کتابیں لکھنے والے یوں بھی شاذ و نادر ہیں، اور ان کے لیے اسلامی لٹریچر تیار کرنے والے ان سے بھی کم، اور بچوں کے لیے اسلامی ادب تخلیق کرنے والے تو چراغ لے کر ڈھونڈیں تو مشکل سے ملتے ہیں۔ یہ بات نہیں کہ ہمارے علماء کے پاس مواد کی کچھ کمی ہے، ماشاء اللہ ان کے پاس تو بچوں کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے، لیکن افسوس کہ نونہالوں کے ساتھ ان کا نفسیاتی رشتہ محدود ہے، ان کے بس میں نہیں کہ بچوں کے لیے ذہنی مواد کو سہل اور آسان بناکر پیش کریں،  ادب کا بچے کی تربیت کے ساتھ بڑا مضبوط تعلق ہے، اسلامی اساس پر ایک بچے کی تربیت کرنا پاکیزہ سوسائٹی کے لیے نیک نسل اور مستقبل کے نوجوان مرد یا عورت کی تربیت کرنا ہے، بچوں کی صحیح تربیت ہی سے امت کی قیادت کے لیے صالح نسل تیار ہوسکے گی۔

بچوں کے ادب کی اس اہمیت کے پیش نظر ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ ان نکات کی نشاندہی کریں جن کا بچوں کے ایک اسلامی ادیب کو اپنی تخلیقات میں ان کا خیال رکھنا ازحد ضروری ہے۔

۔(۱) بچوں کے اسلامی ادیب کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ کائنات، انسان اور زندگی کے تعلق سے اسلام کے سرچشموں سے نکلنے والے افکار و تصورات کو اجاگر کرے۔

۔(۲) بات ادبی لہجہ میں آسان انداز میں اور دوٹوک ہو، اس میں یکسانیت کا شائبہ نہ ہو۔

۔(۳) کائنات میں جو چیزیں آنکھوں سے اوجھل ہونے کے باوجود اپنا وجود رکھتی ہیں، ان کی حقیقتوں کو اور انسان سے ان کے تعلق کو آشکار کیا جائے، تاکہ روحانی اقدار پر بچے کا ایمان مستحکم ہو اور غیبات کا منکر نہ ہو۔

۔(۴)   انسان کی حقیقت، وہ کہاں سے آیا، اس کا مقصد حیات کیا ہے؟، چاروں طرف پھیلی اس کائنات سے اس کا رشتہ کیا ہے، قرار واقعی ان امور پر روشنی ڈالی جائے۔

۔(۵) مختلف علوم کے سلسلے میں معلومات بہم پہنچائی جائیں، ایسے افکار و خیالات پیش کیے جائے جو بچے کو عصر حاضر کے تقاضوں اور جدید علمی ترقیوں سے ہم آہنگ کرسکیں۔

۔(۶)  فصیح زبان کے استعمال سے بچے کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کا خیال رکھا جائے۔

۔(۷)  کوشش کی جائے کہ اخلاقی قدروں کے بارے میں بچے کو بصیرت حاصل ہو، اچھے اخلاق کی قدر اس کے دل میں جگہ بنائے، محبت کے جذبہ کو اس میں ابھارا جائے، خراب عادتوں سے نفرت کا جذبہ اس کے دل میں پیدا ہو، اخلاق حمیدہ اس میں پروان چڑھیں۔

۔(۸)  دور جدید کے مادی رجحانات اور مذہبی و روحانی اقدار میں توازن پیدا ہو۔

۔(۹) بچے کو اس کی سوسائٹی و معاشرت کی روحانی اساس کے بارے میں صحیح جانکاری دی جائے، تاکہ یکجہتی و باہمی تعاون کی روح اس میں طاقت ور بنے، وہ معاشرے میں ایجابی انداز سے اپنی زندگی گزار سکے، اس میں ملنساری پیدا ہو، وہ دوست و دشمن، پاک و ناپاک، خیر و شر سے بھرپور ماحول میں اپنی صحیح ذمہ داری سنبھال سکے، بچے کو تضادات سے بھرپور اس ماحول میں اچھے اور برے کا فرق سمجھنا چاہئے۔

۔(۱۰)  بچے کو بتا دیا جائے کہ وہ مسلمان ہے، اور ساری دنیا میں پھیلی ہوئی امت اسلامیہ کا ایک جزء ہے، لہذا تمام دنیا میں بسنے والے مسلمانوں کا دین، روحانی اقدار اور تاریخ یکساں ہے۔

۔(۱۱)  زندگی کے مختلف گوشوں میں ایسے رنگ بھرے جائیں جو دلوں کو لبھائیں، خیالات و معانی میں ندرت ہو، اور بچے میں خوبصورتی سے لگاؤ اور ذوق سلیم پروان چڑھے۔

۔(۱۲)  ایسا مواد پیش کیا جائے جس سے بچے میں مسرت و خوشی کے جذبات ابھریں، اسے لطف محسوس ہو، اس میں نت نئے خیالات جنم لیں، فارغ اوقات میں مطالعہ کا شوق اسے چرّائے۔

۔(۱۳)  اس بات کا خیال رکھا جائے کہ زبان و انداز بیان جاذبیت سے بھرپور ہو، اسے زبان کی مشکلیں اور اسلوب کے پیچ و خم مٰن الجھا نہ دیں، اس میں اکتاہٹ پیدا نہ ہو، بچہ کی عمر کے مطابق جو الفاظ کا ذخیرہ سینہ میں محفوظ رہتا ہے عبارتوں میں اس کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔

۔(۱۴)  حد سے زیادہ معلومات بچے تک پہنچانے کی ہوس نہ ہو، نہ ہی تشریح میں بے جا افراط سے کام لیا جائے، بچے کو بھی تو آخر سوچنے اور تجزیہ کرنے کا موقعہ ملنا چاہئے۔

۔(۱۵)  براہ راست پند و نصیحت سے پرہیز کیا جائے۔

دور حاضر کے قبل بچوں کے ادیب نے اپنا نام مصنف کی حیثیت سے کتاب پر درج کرنے میں عار محسوس کیا تھا، تین صدیاں گزرنے کے باوجود ہمارے معاشرے میں صورت حال ابھی تبدیل نہیں ہوئی ہے، عام طور پر جو بڑے نام بچوں کے ادیب کی حیثیت سے لیے جاتے ہیں، مولانا اسماعیل میرٹھی، مائل خیر آبادی، شفیع الدین نیر، حامد اللہ افسر وغیرہ چند ایک کو چھوڑ کر اکثروں نے شہرت و ناموری بڑی کتابیں لکھنے ہی میں محسوس کی، اور بڑے معیار کی کتابوں کی جانب ایسے مڑے کہ احساس و خواہش کے باوجود ان سے اپنی لکھی ہوئی کتابوں کا معیار بعد کی کتابوں پر باقی نہیں رکھا جاسکا، دو ایک اجزاء لکھنے کے بعد اسلوب و معیار مکمل بدل گیا، اسباب جو بھی ہوں، چند گنے چنے لکھنے والوں سے میدان خالی ہونے کی وجہ سے ایک بڑا خلا پیدا ہوگیا۔

بڑے ادیبوں نے بچوں کے ادب کو چھوٹا سمجھ کر ہمیشہ اس سے تہی دامنی کی، حالانکہ ادب میں سب سے مشکل صنف بچوں کے ادب کی تخلیق ہے، یہ اپنے تخلیق کار سے شہرت و ناموری کی قربانی مانگتی ہے، بچوں کا ادیب گمنام سپاہی ہوتا ہے جس کے خون کی دھاری پر محفوظ حصار میں بیٹھا کمانڈر فتح کا تمغہ وصول کرتا ہے، تاریخ میں اہمیت تاریخ نویسی کی نہیں شخصیت سازی کی ہے، شخصیتیں تاریخ بناتی ہیں، شخصیت سازی سوانح عمری لکھنے سے زیادہ عظیم کارنامہ ہوا کرتا ہے۔ بچوں کا ادیب شخصیت سازی کا یہ اہم فریضہ انجام دیتا ہے، جب کارخانہ حیات میں شخصیتیں ڈھلیں گی، معاشرہ سنبھلے گا، صالح خون سوسائٹی کی رگوں میں دوڑے گا تب نامور پیدا ہوںگے، لیکن جب نرم کونپلوں کو پانی نہیں ملے گا، تو درخت کہاں اگیں گے، سبزہ زار کا ہے کو لہلہائے گا۔

مبارک ہے یہ مجلس جس نے اس اہم موضوع پر سر جوڑ کر بیٹھنے کے لیے چند دیوانوں کو یکجا کیا، خدا کرے وہ دن جلد آئے جب آج کی سوچ عمل میں ڈھلے، یہاں سے چند افراد وقت کی اس اہم ضرورت کو پورا کرنے کا عزم لے کر اٹھیں، خدا ہمارا حامی و مددگار ہو۔

WhatsApp: 00971555636151

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

*