کل رات ایک ہندی ٹی وی نیوز چینل پر وزیر داخلہ امت شاہ کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ امت شاہ بنگال کے دورے پر تھے۔ وہاں ایک انٹرویو میں گفتگو کے دوران وہ این آر سی کے معاملے پر جواب دے رہے تھے۔ اپنے چھوٹے سے انٹرویو میں امت شاہ نے جو بات کہی وہ نہ صرف چونکا دینے والی تھی بلکہ غیر قانونی اور غیر آئینی بات بھی تھی۔ جب ان سے این آر سی کے بارے میں صحافی نے کہا کہ بنگال میں اس معاملے پر خوف پھیل گیا ہے تو ان کا جواب یہ تھا کہ اس سلسلے میں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس سلسلے میں ان کی جو دلیل تھی وہ حیرت ناک تھی۔ امت شاہ نے فرمایا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ’’ایک بھی ہندو، سکھ، بدھ، جینی اور کرسچن کو باہر نہیں کیا جائے گا۔‘‘ ان کے بقول ان تمام مذاہب کے افراد کو کسی قسم کا کوئی ڈاکومنٹ بھی نہیں پیش کرنا ہوگا۔ بلکہ حکومت آسام کے باہر این آر سی لاگو کرنے سے قبل ایک قانون لائے گی اور اس قانون کے ذریعہ یہ واضح کر دیا جائے گا کہ ’’ہندو، سکھ، بدھ، جینی اور کرسچن پر این آر سی پر لاگو نہیں ہوگا۔ ساتھ ہی ان مذاہب کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت کا حق بھی مل جائے گا!‘‘
جب ہندو، سکھ، جین، کرسچن این آر سی سے بری ہوں گے تو پھر بچا کون جس پر یہ قانون لاگو ہوگا! ظاہر ہے کہ لے دے کر ایک صرف مسلمان بچتے ہیں جن کو امت شاہ اور ان کے آقا ملک کی شہریت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا وزیر داخلہ اس طرح کھل کر مسلمانوں میں این آر سی لاگو کرنے کے نام پر دہشت پھیلا سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ان کا یہ عمل غیر قانونی ہے۔ کیونکہ ایک وزیر جب حلف لیتا ہے تو وہ آئین کے تحفظ اور بلا کسی تفریق discrimination ہر مذہب اور ذات ہر شہری کے مفاد میں کام کرنے کا حلف لیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ امت شاہ نے جب حلف لی تھی تو انھوں نے ہر مذہب کے ہندوستانی کے مفاد میں کام کرنے کی حلف لی تھی۔ اب وہ کھل کر ہندو، سکھ بدھ، جینی اور کرسچن مذاہب کے افراد کے تحفظ کی بات کر رہے ہیں، اور اپنی بات سے واضح کر رہے ہیں کہ وہ مسلم مفاد میں کم از کم این آر سی کے تعلق سے تو کوئی کام نہیں کریں گے۔ بلکہ ان کو ان کی شہریت سے بے دخل کریں گے۔ یہ بات قانوناً جرم ہے اور یہ بات غیر آئینی بھی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا ہے جو ہندو، سکھ، جین، بدھ اور کرسچن پر تو لاگو نہیں ہوگا اور صرف مسلمانوں پر لاگو ہوگا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہندوستانی آئین کے مطابق ایسا کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا ہے جو مذہب کے نام پر کسی بھی ایک مذہب کے گروہ سے تفریق کرے۔ مان لیجیے کہ اگر ایسا قانون پارلیمنٹ بنا بھی دیتی ہے تو وہ سپریم کورٹ رد کر دے گا کیونکہ ایسا قانون آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہوگا۔